Saira Jabeen
Twelve-year-old Maheen was a seventh-grade student. She was very intelligent and had a kind heart. Due to her intelligence, she had a prominent place in her entire family. Maheen lived in a large house with her parents, grandmother, and two uncles, each living with their families. Her uncles’ daughters were her classmates. Her 14-year-old older sister, Pakiza, was also in the same class because she had failed due to poor academic performance and had to repeat the seventh grade.
Although Maheen was a good student and always passed with excellent grades, she never displayed arrogance. However, when the elders at home praised her intelligence, she couldn’t help but feel a sense of pride. She would immediately suppress these feelings and pray to Allah, knowing that pride was a dangerous trait.
One morning, as Maheen woke up, her mind naturally turned to the math test that was scheduled for that day. Their school had weekly tests, and each time, Maheen’s scores outshone those of her sister and cousins. This time too, when the teacher announced the test, her sister and cousins started preparing that very day. Maheen, however, had already practiced several questions the day before, completing her preparation without worry, while Pakiza, Rabia, and Sadia (her cousins) had spent five days preparing at intervals.
Maheen was confident and certain that her test would go well, as her preparation had been thorough. When Rabia and the others sat down to practice math problems, they would watch TV, calling Maheen to help them solve questions. She would solve the problems and explain them to them. Afterward, she got ready and left for school with her sister and cousins, walking the ten-minute route on foot.
After the assembly, they went to their shared class. The first period was with their homeroom teacher. The last period, which was an hour long, was English. After that period, Ms. Kausar entered the class, holding test sheets in her hand. As soon as she entered, she said loudly, “Assalam-o-Alaikum!” All the students stood respectfully and replied, “Wa-Alaikum-Salam!”
Ms. Kausar asked, “Children, do you remember that today is your test?” She gestured for them to sit. All the students responded in unison, “Yes, Miss! We remember.” She then instructed them to bring their sheets and pens and go out to the gallery. The girls quickly lined up in the gallery. Ms. Kausar handed out the test sheets, and the test began. The girls hurriedly started solving the test.
Some girls whispered questions to each other, while others showed their tests to others without speaking. Maheen never asked anyone for help, even if she didn’t understand a question. She didn’t like asking for help. She focused on solving the questions quickly, and most of her answers were already done.
Rabia, sitting behind her, kept asking her for answers. The teacher scolded her, but she didn’t stop. Eventually, Ms. Kausar moved her to another spot. “Ms. knows that I can do it, and Rabia cannot,” Maheen thought, and a feeling of pride slowly crept into her heart. She solved the final question after checking it twice, but she wasn’t satisfied. She checked it again carefully and reassured herself that there were no mistakes. She handed the test paper to Ms. Kausar.
Maheen thought to herself, “Rabia, Sadia, and Pakiza must not have done as well on the test as I did.” She thought this with pride. Although Maheen had done well on the test, she felt strangely disappointed. After handing in her test, she opened her book as usual and checked the questions. She was shocked. Out of the three long questions, the last two had the wrong methods, and the answers were completely wrong.
She realized her mistake. She should have solved the questions in the method she had learned, the one she had memorized. At that moment, Rabia and Sadia entered the class, smiling and telling her that they had solved all the questions correctly except the last one.
Suddenly, Maheen heard a voice in her conscience: “Look, Maheen! The ones you subconsciously considered less intelligent and incapable have passed you today. This is the result of your pride. You, who always solved questions with confidence, are now losing to girls who worked harder and solved the questions repeatedly.”
The voice continued: “You used to explain questions with pride and self-centered thoughts, but today you have fallen behind those who worked harder and understood things for themselves.”
The voice of her conscience reflected the truth back to Maheen. She realized that she had been in the dark all along. Pride and arrogance belonged only to Allah. He alone is capable of everything. His power controls the entire universe, and no one can defeat Him. He is free from all flaws and the Creator of all. Maheen’s conscience had shown her the right path, and she listened to its guidance. That was when she truly realized her mistake.
غرور کی سزا | The Punishment of Pride
تم جو انہیں دل میں فخریہ اور خود پسند خیالات رکھتے ہوئے سوالات سمجھاتی تھیں، آج خود سے سمجھنے والی، محنت والیوں سے پیچھے چلی گئیں۔
سائرہ جبیں
بارہ سالہ ماہین ساتویں کلاس کی طالبہ تھی۔وہ بہت ذہین اور اچھے دل کی مالک تھی۔اپنی ذہانت کی وجہ سے پورے خاندان میں اسے ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ماہین کے بڑے سے گھر میں اس کی امی، ابو اور دادی کے علاوہ دو چاچو بھی اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ رہتے تھے۔چاچو کی بیٹیاں اس کی کلاس فیلوز تھیں۔اس کی 14 سال کی بڑی بہن پاکیزہ بھی اس کی کلاس فیلو تھی کیونکہ پڑھائی میں کمزور ہونے کی وجہ سے وہ فیل ہو گئی تھی۔
اس لئے دوبارہ ساتویں کلاس میں بٹھا دی گئی۔
ماہین ویسے تو بہت اچھی تھی، ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہونے کے باوجود اس نے کبھی غرور کا اظہار تک نہیں کیا تھا، مگر کبھی گھر کے بڑوں میں اس کی ذہانت کی تعریفیں کی جاتیں تو اس کے دل میں خود بخود ”خود پسندی“ کے جذبات جنم لیتے تاہم وہ فوراً ان جذبات کا گلا گھونٹ دیتی اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ خود پسندی لا علاج مرض ہے۔
ایک دن صبح جب وہ اٹھی تو دماغ خود بخود میتھ کے ٹیسٹ کی طرف چلا گیا، جو آج کلاس میں لیا جانا تھا۔ان کے سکول میں ہر ہفتے ٹیسٹ ہوتے تھے۔ہر بار اس کے نمبر اپنی بہن اور کزنز سے زیادہ آتے تھے۔اس بار بھی جب مس نے ٹیسٹ کا بتایا تو اس کی بہن اور کزنز نے اسی دن ٹیسٹ کی تیاری شروع کر دی۔اس نے بھی کئی سوالات کی مشقیں کیں، یوں اس نے کسی بھی قسم کی فکر کے بغیر ایک دن میں اپنے ریاضی کے ٹیسٹ کی تیاری مکمل کر لی، جبکہ پاکیزہ، رابعہ اور سعدیہ (کزنز) پانچ دنوں تک وقتاً فوقتاً ٹیسٹ کی تیاری کرتی رہیں۔
ماہین کو خود پر اعتماد تھا اور اس بات کا یقین تھا کہ اس کا ٹیسٹ ہمیشہ کی طرح بہت اچھا ہو گا کیونکہ اس کی تیاری بہت اچھی تھی۔جب رابعہ وغیرہ ریاضی کی مشقیں حل کرنے کیلئے بیٹھتیں تو وہ ٹی وی دیکھنے لگتیں، ماہین کو بار بار آواز دے کر بلاتیں کہ ذرا یہ سوال تو حل کر دو۔وہ سوال حل کر کے انہیں سمجھا دیتی۔خیر! وہ صبح تیار ہو کر اپنی بہن اور کزنز کے ساتھ سکول کی طرف روانہ ہو گئی، جس کا پیدل کا راستہ دس منٹ کی مسافت پر تھا۔
اسمبلی کے بعد وہ سب اپنی مشترکہ کلاس میں چلی آئیں۔پہلا پیریڈ ان کی انچارج ٹیچر کا تھا۔آخر کا پیریڈ جو کہ ایک گھنٹے کا تھا، انگلش کا تھا، جب وہ پیریڈ ختم ہوا تو مس کوثر کلاس میں آ گئیں۔انہوں نے ہاتھ میں ٹیسٹ شیٹس پکڑ رکھی تھیں۔کلاس میں آتے ہی انہوں نے زور سے کہا ”السلام علیکم!“ سب طلبہ نے ادب اور تعظیم کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا اور جواب دیا ”وعلیکم السلام“!
مس کوثر نے کہا ”بچو! یاد ہے نا آج آپ لوگوں کا ٹیسٹ ہے“؟ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں انہیں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا۔
سب نے زور سے ایک زبان ہو کر جواب دیا ”جی مس! ہمیں یاد ہے“۔”تو شیٹ اور پین وغیرہ لے کر گیلری میں آ جائیں“ وہ رعب دار آواز میں بچوں کو حکم دیتے ہوئے بولیں۔سب لڑکیاں جلدی سے باہر گیلری میں آ کر قطار میں ترتیب سے بیٹھ گئیں۔مس کوثر نے ان کے درمیان شیٹس تقسیم کیں۔ان کا ٹیسٹ شروع ہوا۔سب لڑکیاں جلدی جلدی ٹیسٹ شیٹ پر ہاتھ چلا رہی تھیں۔
کچھ لڑکیاں سرگوشی میں ایک دوسرے سے سوالات پوچھ رہی تھیں جبکہ کچھ بغیر بولے دوسروں کو اپنا ٹیسٹ دکھا رہی تھیں۔ماہین کو چاہیں ٹیسٹ یا پیپر بالکل بھی نہیں آتا ہو مگر وہ کسی سے کچھ بھی پوچھتی نہیں تھی۔اسے نجانے کیوں اچھا نہیں لگتا تھا کہ وہ کسی سے کچھ پوچھے۔وہ جلدی سے ٹیسٹ کے سوالات حل کر رہی تھی۔اس کے زیادہ تر سوالات حل ہو گئے تھے۔
پیچھے بیٹھی رابعہ بار بار اس سے سوالات کے جواب پوچھ رہی تھی۔مس نے اسے ٹوکا بھی مگر وہ باز نہ آئی۔آخر کار مس نے اسے وہاں سے اٹھا کر کہیں اور بٹھا دیا۔
”مس کو پتا ہے کہ مجھے آتا ہے اور رابعہ کو نہیں، اس لئے انہوں نے اسے الگ بٹھا دیا“ ماہین کے دل میں فخر و غرور والے جذبات کب پیدا ہونے شروع ہوئے، اسے پتا بھی نہ چل سکا۔اس نے آخر سے پہلے والا سوال حل کیا پھر آخری سوال جو دو بار حل کرنے پر بھی اسے مطمئن نہیں کر رہا تھا، اسے دوبارہ اچھی طرح دیکھا، تسلی سے دیکھ لینے کے بعد بھی اسے اس میں کوئی غلطی دکھائی نہ دی تو دل کو مطمئن کرتی ہوئی الحمد اللہ پڑھنے لگی، اس نے وہ ٹیسٹ کاپی مس کو دے دی۔
ماہین دل میں سوچنے لگی ”رابعہ، سعدیہ اور پاکیزہ نے یقینا اتنا اچھا ٹیسٹ نہیں کیا ہو گا“۔اس نے پھر غرور و تکبر سے سوچا!
ماہین کا ٹیسٹ اگرچہ اچھا ہوا تھا پھر بھی نہ جانے کیوں اس کا دل مرجھایا ہوا سا تھا۔شیٹ دینے کے بعد وہ حسب عادت اپنے بنچ پر آ کر کتاب کھول کر بیٹھ گئی۔سوالات چیک کئے تو دھک سے رہ گئی۔یہ کیا! تین لانگ میں سے آخری دو لانگ سوال کے طریقے غلط ہونے کے علاوہ جوابات بھی بالکل غلط تھے۔
یہ کیا؟ ہمیشہ کی طرح غلطی کرنے کے بعد اسے احساس ہوتا تھا۔اسے اب یاد آ رہا تھا کہ اسے اس طرح نہیں بلکہ اس طریقے سے سوالات حل کرنے چاہئے تھے، جس کے جواب اسے اچھی طرح ذہن نشین ہو چکے تھے۔
اسی وقت کلاس میں چہکتی ہوئیں رابعہ اور سعدیہ چلی آئیں۔مسکراتے ہوئے دونوں بتا رہی تھیں کہ ان کا صرف آخری لانگ سوال چھوٹ گیا، باقی سب سوالات انہوں نے بالکل ٹھیک کئے ہیں۔
اچانک اس کے اندر سے ضمیر کی آواز سنائی دی! ”دیکھو ماہین! جن کو تم دل ہی دل میں لاشعوری طور پر کم عقل اور نالائق سمجھتی تھیں، وہ تم سے آج آگے نکل گئیں۔یہ تمہارے غرور کا نتیجہ ہے۔تم جو ہمیشہ اچھے ٹیسٹ دیتی تھیں اور خود اعتمادی سے صرف ایک بار ہی سوالات حل کر کے سکون سے بیٹھ جاتی تھیں، آج بار بار ایک ہی سوال کو حل کرنے والی لڑکیوں سے ہار گئیں۔
تم جو انہیں دل میں فخریہ اور خود پسند خیالات رکھتے ہوئے سوالات سمجھاتی تھیں، آج خود سے سمجھنے والی، محنت والیوں سے پیچھے چلی گئیں“۔
ضمیر کی آواز نے ماہین کو آئینہ دکھایا، تب اسے سمجھ میں آیا کہ وہ تو ہمیشہ سے اندھیرے میں تھی، فخر کرنے والی، خود پسندی کرنے کے لائق ذات تو صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔بے شک صرف وہی ہر چیز پر قادر ہے۔جس کی مٹھی میں پوری کائنات ہے، جسے کوئی ہرا نہیں سکتا۔جو ہر عیب سے پاک ہے اور تمام مخلوق کا خالق ہے۔ماہین کے ضمیر نے اسے صحیح راستہ دکھایا، اس نے اپنے ضمیر کی باتوں پر کان دھرے، تب ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
[…] The Punishment of Pride […]